Fri. Apr 26th, 2024
542 Views

اسلام آباد ( ) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پرامن ذرائع سے حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں کہ برطانیہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے ایسی ایک گولی بھی بھارت کو نہیں ملنی چاہیے جس سے وہ مقبوضہ کشمیر میں بچوں، خواتین اور بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنائے۔ برطانیہ بھارت کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کے ساتھ مشروط کرے۔ کشمیریوں کی مدد کے لئے انسانی فنڈ قائم کرنے کے علاوہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے پر بھارت کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ، ارتداد سرمایہ اور پابندیوں (بی ڈی ایس) کی مہم شروع کی جائے تاکہ نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہندو فسطائی حکومت کو کشمیریوں کے انسانی حقوق اور اُن کے حق خودارادیت کا احترام کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ بات انہوں نے تحریک کشمیر برطانیہ کے زیر اہتمام ”کشمیر میں دوہرا لاک ڈاؤن اور عالمی ردعمل“ کے موضوع پر ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ویبینار سے کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی، سکاٹش نیشنل پارٹی، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین پارلیمان کے علاوہ نامور سکالرز اور دانشوروں نے بھی خطاب کیا۔ اس کانفرنس کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے برطانوی اراکین پارلیمان پر زور دیا کہ وہ برطانیہ کی سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر سیکرٹری خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر کے ساتھ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سنگین صورتحال پر بات چیت کریں اور برطانیہ کی حکومت کو مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ تنازعہ قرار دے کر سفارتی فرار اختیار کرنے سے روکیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی پارلیمان کے اراکین کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری حقوق انسانی کی پامالیوں، قتل و غارت، ایذا رسانی، خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور اندھا دھند گرفتاریوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں جو بھارت کی فوج لاک ڈاؤن کی آڑ میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ صدر آزادکشمیر نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ بھارت نے پانچ اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک لاک ڈاؤن لگایا تھا اور اب کرونا وائرس کی وباء کی آڑ میں ایک اور لاک ڈاؤن لگا کر مقبوضہ ریاست کے شہریوں کی زندگی جہنم زار بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اپریل میں بھارتی حکومت نے ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے لئے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کرائے اور اس طرح بھارت نے کشمیریوں کے روزگار، حصول جائیداد، ملازمتوں اور تعلیمی وظائف کے حصول کے حقوق بھی چھین لئے ہیں۔ صدر آزادکشمیر نے مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر دوبارہ قبضہ اور ریاست کے حصے بخرے کرنے کے عمل کو استعماریت اور نو آبادکاری سے تشبہیہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیر میں آبادی کے تناسب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی، جنیوا کنونشن، انٹرنیشنل کرمینل کورٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی نفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے چند دنوں کے اندر بھارت کے پچیس ہزار ہندو شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کر کے انہیں متنازعہ علاقے میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اسی طرح بھارت کے مسلم شہریوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے اصل باشندوں کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ ریاست کے شہری ہیں یا نہیں ایک مشکل صورتحال دوچار کر دیا ہے۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اگر ہم نے بھارت کا ہاتھ نہ روکا تو جو کشمیر آج موجود ہے وہ کل نہیں ہو گا کیونکہ بھارت کی حکومت نے بیس لاکھ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں لا کر بسانے کامنصوبہ اپنایا ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس حکومت کے تحت بھارت میں مختلف مذاہب کے درمیان دوری اور تفاوت کا ذکر کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ بھارت کی موجودہ صورتحال گزشتہ صدی کے جرمنی سے ملتی ہے جب ہٹلر کی نازی پارٹی نے اپنے ملک میں یہودی شہریوں کو اچھوت بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت پورا مقبوضہ جموں وکشمیر دوہرے لاک ڈاؤن میں ہے اور گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کو شہید اور ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جا چکا ہے۔ خود جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ بائیس کشمیری جنگجوؤں کو گزشتہ چند ماہ میں ہلاک کیا گیا ہے۔ بھارتی قابض فوج کشمیر میں نسل کشی، نسل تطہیر میں مصروف ہے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ علاقے میں امن کے قیام کے لئے تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی میں خطہ میں ایٹمی جنگ کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے اور اگر یہ جنگ ہوئی تو اس سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے کشمیر کے حوالے سے بیانات پر بھارتی حکومت کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لے کیونکہ تنازعہ کشمیر پہلے ہی اس کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ برطانیہ کی پارلیمان میں تنازعہ کشمیر پر بحث کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے برطانیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں بھی زیر بحث لائے۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کو خبردار کیا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے کوشش کرے گا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے نکالنے، تنازعہ کشمیر پر کسی قسم کی بحث کو رکوانے اور پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے فنڈز بند کرانے کی کوشش کرے۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام اور پاکستان بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن بھارت بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور کشمیری عوام اقوام متحدہ، بااثر ممالک یا کسی بھی غیر جانبدار ملک یا ادارے کی طرف سے ثالثی کے ذریعے تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے تیار ہے لیکن بھارت ایسی ہر کوشش کی راہ میں کسی ایک یا دوسرے بہانے سے رکاوٹ کھڑی کرتا ہے۔ کانفرنس سے کنزویٹو فرینڈز آف کشمیر کے چیئرمین جمیز ڈیلی، شیڈو سیکرٹری آف سٹیٹ فار ٹرانسپورٹ جم میک مان، رکن پارلیمنٹ لیام باہر، یورپین پارلیمان کے سابق رکن فل بینن، رکن پارلیمان برینڈن او ہارا، نادیہ وائیٹ ہم، رکن پارلیمنٹ الیکس نورس، رکن پارلیمنٹ کرسچن ویکفورڈ، رکن پارلیمنٹ سٹیلا کریسی، رکن پارلیمنٹ ریچل ماسکل، ڈینش رائٹر، جین ٹیلر،تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر راجہ فہیم کیانی، حریت کانفرنس کے رہنما اور جموں کشمیر سالویشن موومنٹ کے چیئرمین الطاف بٹ، کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل آفیئرز کے چیئرمین الطاف احمد وانی نے بھی خطاب کیا۔

٭٭٭٭٭
صدارتی سیکرٹریٹ، کیمپ آفس کشمیر ہاؤس اسلام آباد
04-07-2020

اسلام آباد ( ) آزاد جموں وکشمیر صدر سردار مسعود خان نے پارلیمان کی کشمیر کمیٹی پر زور دیا ہے کہ وہ ملکی سطح پر تمام سیاسی قوتوں کو مسئلہ کشمیر پر یکجا کر کے ایک سیاسی ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کے علاوہ بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے پلیٹ فارم سے تنازعہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے تمام رسمی اور غیر رسمی سفارتی ذرائع کو استعمال کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، بھارت مقبوضہ ریاست کی آبادی کے تناسب کر تبدیل کرنے کے لئے ایسے اقدامات اٹھار ہا ہے کہ اگر اس راستہ بروقت نہ روکا گیا تو آنے والے سالوں میں ریاست کی سیاسی اور جغرافیائی ہیت مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ یہ بات انہوں نے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہریار خان آفریدی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جنہوں نے ہفتہ کے روز جموں وکشمیر ہاؤس اسلام آباد میں صدر آزادکشمیر سے ملاقات کی۔ صدر ریاست نے رکن قومی اسمبلی شہریار خان آفریدی کو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی ذمہ داریان سنبھالنے پر مبارکبار دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے حقیقی تناظر میں اجاگر کرنے کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ اور لاکھوں بھارتی شہریوں کو مقبوضہ ریاست میں بسانے کے اعلان کے بعد اب اس بات نے کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور کشمیریوں کی زمین، روزگار، ملازمت اور تعلیم کے حقوق چھیننے کے علاوہ اُن کی اپنی دھرتی کو اُن کے لئے اجنبی بنانے کے عمل کا آغاز کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جس تیزی کے ساتھ کشمیر میں اقدامات کر رہا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں تیزی لائیں اور قومی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا قائم کر کے بھارت کے مذموم عزائم کو ناکام بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا قومی ریسپانس ہی بین الاقوامی ریسپانس کی بنیاد فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصے میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج نے بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کی کارروائیوں میں بہت تیزی پیدا کر دی ہے، ماورائے عدالت قتل کی تمام وارداتیں دوہرے لاک ڈاؤن اور محاصرے اور تلاشی کی آڑ میں کی جارہی ہیں۔ جموں وکشمیر کے مظلوم اور ستم رسیدہ عوام آج جس کرب سے گزر رہے ہیں وہ اس سے نکلنے کے لئے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ پاکستان ہی کشمیریوں کا واحد سہارا اور امیدوں کا مرکز ہے۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج بین الاقوامی برادری کی حمایت کا یہ حصول ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم دنیا کی مختلف پارلیمانز سے رابطہ کریں اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کشمیر ی اور پاکستانی کمیونٹی کی مدد حاصل کر کے اس فریضہ کو موثر انداز میں انجام دیں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی نے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور اس مقصد کے لئے انہیں کشمیری قیادت خاص طور پر صدر ریاست کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی کشمیر کمیٹی مسئلہ کشمیر کو اُس کے درست تناظر میں اجاگر کرنے اور مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لئے ماہرین، نامور جامعات اور دنیا کے پارلیمنٹرین کے ساتھ روابط بڑھانے کے علاوہ کشمیر کے موضوع پر علمی اور تحقیقی کام کرنے والے مفکرین اور سکالرز کو کمیٹی کے اجلاسوں میں بلا کر اُن سے رہنمائی حاصل کریں گے۔

By ajazmir