Fri. Mar 29th, 2024
791 Views
آٹھ اکتوبر کا المناک دن اور کچھ نا قابل فراموش کردار
تحریر: بابر بشر
تین رمضان المبارک کو صبح کی روشنی پھوٹی تو ہر طرف سکون ہی سکون تھا پرندے اپنی اپنی میٹھی زبان میں گن گنا رہے تھے اور ثناء حمد و باری تعالیٰ بیان کر رہے تھے سورچ کی پہلی کرن حسین اور خوبصورت پہاڑوں پر پڑی تو وادی کشمیر جگمگا اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سورج نکل آیا ہر طرف روشنی چھا گئی اس دن صبح کے عالم میں شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے زندگی رواں دواں تھی اور لوگ اپنے اپنے کاموں پر جا رہے تھے ماؤں نے بچوں کو تیار کر کے سکولوں کو بھیجا کسی کو علم نہ تھا کہ آج کیا ہوگا مائیں اس آس میں تھی کہ ان کے بچے کب لوٹ آئیں گے اور بچے اس آس میں کہ کب سکول سے واپس آ کر اپنی ماؤں کے گلے لگیں گے مگر 08اکتوبر بروز ہفتہ دن گزر ہی رہا تھا کہ 08:53منٹ پر اچانک ایک خوفناک آواز آئی زمین کانپ اٹھی اور ایک لمحے میں عمارتیں زمین بوس ہو گئی وادی کشمیر اور اس کے گرد نواح کے علاقے خون میں لت پت ہو گئے اور ہر طرف چیخ و پکار، بے بسی اور بے کسی کا عالم تھا ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھی سکولوں کی عمارتیں گرنے سے بچے خون میں نہا گئے۔کسی کا بیٹا نہ رہا۔۔۔کسی کی ماں نہ ہی۔۔۔ کسی کا باپ نہ رہا۔۔۔۔ کسی کی بیٹی نہ رہی۔۔۔۔ کسی کی بہن نہ رہی اور کسی کا بھائی نہ رہا۔۔۔ اور کئی خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔ یوں آنکھوں نے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دیکھایہ08اکتوبر 2005کا ہولناک زلزلہ تھاوادی کشمیر کے تین اضلاع،خیبر پختون اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں آنے والا یہ زلزلہ تاریخ انسانی کا 04خوفناک اور تباہ کن زلزلہ تھا۔ سرکاری عداد وشمار کے مطابق اس زلزلے میں 74,698ہلاکتیں ہوئی جبکہ عالمی امدادی اداروں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 86,000تھیں ا س زلزلے میں ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ تیس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے صرف یونورسٹی اف آزاد جموں و کشمیر میں 5 ملازمین 8 استاتزہ اور ایک سو سے زائد طلباء و طالبات شہید ہوئے۔۔ ہولناک زلزلے کی ہولناکیوں کو راقم نے بھی کئی احباب کی طرح اپنی آنکھوں سے دیکھااور وہ مناظر دیکھے جو تاحیات بھلائے نہیں جا سکیں گے۔ زلزلے کے فوراً بعد جب راقم دوستوں کے ہمراہ ایک اخبار کے لئے رپورٹینگ کے سلسلہ میں چھتر سے شہر کی طرف روانہ ہوا تو ہر طرف گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھی،مرد، عورتیں، بچے اور جوان سب اپنوں کی تلاش میں آہ و پکار کرتے ہوئے سکولوں، کالجوں اور دفتروں کی طرف دوڑ رہے تھے جبکہ اولڈ سیکرٹریٹ سے یونیورسٹی کالج گراؤنڈ تک سڑک کے دونوں اطراف میں عمارتیں زمین بوس ہونے کی باعث لاشیں جگہ جگہ بکھری پڑی تھی۔رضوان پبلک سکول کے پاس سے جب ہمارا گزر ہوا تو آنکھوں نے انسان کی قدرت کے سامنے بے بسی کے وہ مناظر دیکھے جو رہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔سکول کے باہر مائیں اپنے بچوں کے لئے۔۔۔ آہ و زاری۔۔۔ کر رہی تھی جبکہ سکول کے اندر سے بچوں کی آوازیں آ رہی تھی۔۔ ماں میں زندہ ہو مجھے بچا لو۔۔۔ مگر ان کو زندہ بچانے کے لئے کسی کے پاس کوئی اسباب نہ تھے ایسی حالت میں جو بچے شہید ہوئے ان کے والدین پر کیا گزری ہو گی یہ یا تو وہ جانتے ہیں یا ان کا رب جانتا ہے۔پورے شہر میں ہر طرف یہی صورتحال تھی اور نیلم، باغ، بالا کوٹ، مانسہرہ میں بھی اسی طرح کے کربناک واقعات رونما ہوئے۔ خوف کے اس عالم میں کتنی ماؤں نے اپنے جگر گوشے کھو دیئے۔کتنے بچے اپنے والدین کی شفقت اور محبت سے محروم ہو گئے۔یہ ایک لمبی داستان ہے۔تاہم مختصراً 08اکتوبر 2005کا یہ دن گزرتا گیا اور بے بسی کے عالم میں شام کا منظر خوفناک تر ہوتا چلا گیا۔ زلزے کے بار بار جھٹکے آنے سے لوگوں میں خوف و ہراس اور بھی بڑھتا گیا اس عالم میں خطے کے اندر کام کرنے والی ضلعی انتظامیہ، پولیس اور پاک فوج کے جوانوں نے اور بالخصوص اس شہر میں زندہ بچ جانے والے نوجوان نے جس کمال بہادری اور جرات منندی سے زخمی افراد کی طبی امداد اور زلزلے کی شام کو ہی عارضی خیمے لگانے میں انتظامیہ اور پولیس کی مدد کی اس کی مثال نہیں ملتی۔
جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش اور قابل تقلید ہے اور بلخصوص پاکستانی عوام کی جانب سے جس ہمدرردی اور فراخدلی کا مظاہرہ ہوا وہ تاریخ میں سنہری خروف سے لکھا جا چکا ہے۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور  افواج پاکستان کے جوانوں نے اپنے بھال بچوں،والدین اور اپنے عزیز و اقارب کی پرواہ کئے بغیر مظفرآباد شہر میں ملبے تلے دبے افراد کو زندہ نکالنے، شہید ہو جانے والوں کو دفن کرنے اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد اسلام آباد منتقل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کو آزاد کشمیر کی عوام کبھی بھی کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کر سکتے۔اسی طرح پاکستان بھر کے عوام،میرپور اور کوٹلی کے عوام نے 08اکتوبر 2005کی شام کو ہی مظفرآباد، باغ، نیلم، جہلم میں کھانے پینے کی اشیاء اور زخمیوں کے لئے ابتدائی طبی امداد کے لئے ریلیف کیمپ قائم کر دیئے۔ پاکستانی عوام نے 08اکتوبرکے زلزلے میں بے گھر ہونے والوں کے لئے اپنے گھر بار کھول دیئے بلکہ جس انداز سے پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کی طرف سے مظفرآباد شہر، باغ اور نیلم میں سڑکوں اور چوراہوں میں امداد کے سازوسامان جن میں سوئی دھاگوں سے لے کر عارضی شیلٹر تک ہر چیز موجود تھی دیکھ کر مہاجرین و انصار کی یاد تازہ ہو گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان کے عوام نے کشمیریوں کے دکھ اور درد میں برابر کا شریک ہو کر مہاجرین و انصار کی مثال کو زندہ کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ اپنے اس رشتے کی بنیاد کو مضبوط بنایا ہے کہ جو اسلام اور پاکستان کے نام پر بنایا گیا تھا۔ خدا کرے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے 08اکتوبر2005کی مشکل گھڑی میں عالمی امدادی اداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر کشمیری عوام کا ساتھ دیا ان کا  کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔

By ajazmir