Tue. May 14th, 2024
208 Views
اسلام میں پڑوسی کے حقوق،کیا ہم وہ پورے کرتے ہیں؟
تحریر:مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
معاشرے میں ایک ہی محلے یا علاقے میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں جنم لے سکتی ہیں۔
اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہم دردی و اخوت، پیار محبت، امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے پڑوسیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔
حضور اکرم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کی: یارسول اﷲ ﷺ ! وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔‘‘ (بخاری) اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اﷲ ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، چناں چہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اﷲ ﷺ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں؟ تو رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نیک بن جاؤ۔‘‘ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہیں تو تم بُرے ہی ہو۔‘‘
(شعب الایمان)
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے پڑوسیوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ہمسایوں کے حقوق کی بہت اہمیت ذکر فرمائی ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میرے پاس جبریل امینؑ اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار) قرار دیا جائے گا۔‘‘ (البخاری)
اس حدیث مبارک سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے۔ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ بن جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اﷲ رب العزت اور قیامت کے دن (یعنی تمام ایمانیات کو صدق دل سے) تسلیم کرنے والا ہے، اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔‘‘ (صحیح مسلم) اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرنے اور ان کی عزت کی رکھوالی کرنے والا ہوتا ہے۔
حضرت ابُوذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ابوذر! جب شوربہ (والا سالن) بناؤ تو پڑوسیوں کو اس میں سے دینے کے لیے کچھ پانی بڑھا لو۔‘‘ (صحیح مسلم) اس حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتے وقت معمولی چیزیں دینے میں بھی کوتاہی سے کام نہ لو، بل کہ اگر سالن بنانا ہے تو اس کی کچھ مقدار اضافہ کرلو تاکہ پڑوسیوں کو بھیجا جا سکے۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چناں چہ فرمان مصطفی ﷺ ہے جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجمِ کبیر)
(الترغیب و الترہیب)
پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔‘‘ (معجمِ کبیر)
ایک اور روایت میں فرمایا اگر وہ تنگ دست ہوجائے تو اسے تسلی د و، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزیت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہوا نہ روکو، سالن کی خوش بُو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔
(شعب الایمان)
معاشرے کو پُرسکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔ مذکورہ بالا احادیث سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں تو خود اپنے گھر والوں کے کتنے حقوق ہوں گے۔جب پڑوسیوں کو تکلیف دینا، ان کا دل دکھانا جائز نہیں تو خود اپنے گھر والوں سے بول چال چھوڑنا، مارنا پیٹنا اور غیر اخلاقی برتاؤ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ آج ہمارے معاشرے میں بہت سے خود کو دین دار کہلانے والوں کا اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں اور اگر گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہر جائز اور ناجائز فرمائشیں پوری کرنا شروع کر دی جاتی ہیں، اسلام وہ اعتدال والا دین ہے کہ یہاں خوشی بھی دینی ہے لیکن جائز خوشی دینی ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

By ajazmir