سچی جمہوریت بحالی کا فیصلہ
۔ (فالٹ لائن)
طاہر احمد فاروقی
آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک تاریخ ساز فیصلہ سنادیا ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس راجہ محمد سعید اکرم کی سربراہی میں جسٹس خواجہ محمد نسیم جسٹس رضا علی خان پر مشتمل بینچ نے حکومت کی طرف سے دائر درخواست پر سماعت کی حکومت کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں حلقہ بندیوں فہرستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں جنکی درستگی کرنی لازمی ہے جبکہ مالیاتی بحران بھی درپیش ہے فنڈز کی دستیابی کا مسئلہ ہے نیز بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سیکورٹی فورسز کی دستیابی بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہی ہے مارچ میں رمضان المبارک کی آمد ہے اس لیے بلدیاتی انتخابات کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا جائے جبکہ بار کونسل ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سول سوسائٹی کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا انتخابات شیڈول کے مطابق ہونے چاہیے ہیں جو جاری ہوچکا ہے حکومت اور بلدیاتی الیکشن کے مخالفین کسی طرح بلدیاتی انتخابات کو التواء میں لے جاکر راستے بنارہے ہیں بلدیاتی انتخابات بالکل نہ ہوں آگے چل کو مزید بہانے تراش لائینگے آزاد کشمیر کی ساری ابادی 44 لاکھ ہے کو راولپنڈی کے دو انتخابی حلقوں کے برابر ہے اگر یہاں کا اتنا بڑا نظام یہ کام نہیں کرسکتا تو اسکا کیا جواز رہے جاتا ہے سیکورٹی فورسز کا مسئلہ ہے تو تین مراحل میں انتخاب کرالیے جائیں سیکورٹی فورسز کی مذید دستیابی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی عدالت نے بھی دوران بحث سوالات کیے اور اس بات پر برہمی کا اظہار بھی کیا حلقہ بندیوں سمیت تمام امور حکومت نے طے کیے اور ملبہ سپریم کورٹ پر ڈالا جاتا رہا عدالت نے اپنے سولات میں نکات اٹھائے گزشتہ عرصے میں کتنی مئی گاڑیوں کی خرید کی گئی صرف دو گاڑیوں کی قیمت پر بلدیاتی انتخابات ہوجائینگے مالیاتی بحران پاکستان میں ہے لیکن وہاں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جاری ہے بلدیاتی انتخابات کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے تو تین مراحل میں انتخاب کرالیں فورسز کی کمی کا مسئلہ حل ہو جائے گا عدالت کے سولات کے جوابات میں واضح ہوا کہ ہائی کورٹ میں صرف چھ مقدمے باقی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن میں بھی کم وبیش فیصلے ہوچکے ہیں جس پر عدلیہ نے ریماکس دیے اگر کچھ جگہوں پر مسئلہ ہے تو باقی سب کا کیا قصور ہے باقی سب جگہ انتخابات کرالیں جہاں مسئلہ ہے وہاں بعد میں ہوجائینگے مجموعی طور پر بار کونسل ہائی کورٹ ایسو سی ایشن سول سوسائٹی کی طرف سے اختیار کردہ موقف کا حکومت کے پاس تسلی بخش جواب تھا نہ عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے بارے میں معقول عذر پیش کرنے کی گنجائیش موجود تھی تاہم عدالت نے بڑی بصیرت حقایق دلائل کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنانے سے قبل حکومت کو وقت دیا وہ وقفے کے دوران جاکر رہنمائی حاصل کرلے اور بتائے حکومت کی طرف سے اختیار کردہ موقف یقین دہانیوں اٹل ہیں وقفے کے بعد حکومت کی طرف سے بتایا گیا عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے گا بلدیاتی انتخابات کرائے جائینگے اور الیکشن کمیشن کو ضرورت کے مطابق فنڈز کی فراہمی بروقت ہوگی جسکے ساتھ ہی عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں حکم دیا بلدیاتی انتخابات 30 نومبر تک تین مراحل میں کروائے جائینگے ڈویثرن وائز ہونگے اور تینوں ڈویژن میں انتخابات زیادہ نہیں دو سے تین دن کے وقفے کے ساتھ ہونگے حکومت کو دی گئی مہلت میں اسکی طرف سے جن امور کو درست کیے جانے کی بات کی گئی ہے ان کو ٹھیک کیا جائے گا عدالت نے فیصلے سے قبل دوران سماعت وہ تمام حکومتی کمٹمنٹس اور اعترافات بھی کرالیے جن کی بنیاد پر اگر عدالتی حکم پر عمل درآمد میں آگے چل کر چوں چراں کی گئی تو پھر اس میں شامل توہین عدالت کے مرتکب ہوکر حکومت اور اسمبلی میں بھیٹے کے اہل رہینگے نہ انتخاب میں حصہ لے سکیں گے اب کسی کے پاس دی گئی مہلت کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے راہ فرار کی سوئی کے سوراخ جتنی گنجائیش دلیل باقی نہیں بچی ہے اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی ہوچکا ہے ان بلدیاتی انتخابات کا 32 سال بعد انعقاد صرف اور صرف سپریم کورٹ کا اعزاز ہوگا عوام اور سیاسی کارکنان کو انکا بنیادی حق رائے دہی و اختیار بلدیاتی نظام کی بحالی کے شکل میں ملنے کے دروازے کھل گئے ہیں جزباتی نعروں جعلی ایشوز اور چھوٹی چھوٹی سکیموں کی ریوڑیاں پھیلا کر انکے استحصال بے توقیری کے لمبے عرصے سے جاری غلامی کے دور کی زنجیریں ٹوٹنے کا آغاز ہوا جاتا ہے جسکے لیے جدوجہد کرنے والے سب وکلاء میڈیا پرسنز اور سول سوسائٹی کے کارکنان کے نام سب سے پہلے سنہری حرف سے لکھے جانے چاہیے ہیں خود الیکشن کمیشن کے چیف و ارکان کے لیے بھی ساری ذندگی کا قابل فخر اظہار ہوگا ان کو بنیادی جمہوریت بحال کرنے کی ذمداری ادا کرنے کا فریضہ مل چکا ہے اب عوام اور سیاسی کارکنان کو فرض ہے کہ وہ پیسے اور تعصبات کے بتوں کو پاش پاش کرکے اجتماعی وقار عزت بھلائی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر بت شکن کے اعزاز و افتخار کے بجائے بت پرست بن کر غلامی چاکری کو دوبارہ اپنا مقدر نصیب بناکر اس ذلت رسوائی کے اندھیروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں