557 Views
صاحبزادہ محمداسحاق ظفر (مرحوم) ایک عہد ساز شخصیت
تحریر:۔ سید انصار حسین نقوی، گوجربانڈی آزادکشمیر

جریدہ عالم پر کچھ نقوش ایسی شخصیات کے ثبت ہوجاتے ہیں جوکسی عہد کو مخصوص رنگ دے کر خصوصی تقاضوں پر مبنی خاص نوع کی فضائے تخلیق معرض وجود میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،جوعوام کوبالعموم اورتخلیق کاروں کو بالخصوص خاص طرح کے نفسی سانچے میں ڈھال کر کبھی اس عہد کی فضاء تخلیق سے ہم آہنگ کردیتی ہے تو کبھی متصادم،ایسی درویش صفت وبرگزیدہ شخصیات منزل،نشان منزل، اورمثال منزل کے طور پر یوں مشعل راہ بنتے ہیں کہ عروج وزوال کااصول انہیں اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکتا، وادی کشمیر جنت نظیر کی زرخیزی کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے جس نے اپنی کوکھ سے کئی عظیم شخصیات کوجنم دیا انہی میں سے ایک تین دہائیوں تک سیاست کے افق پر درخشندہ ستارے کی مانند چمکنے والی عزیمت واستقامت کاپیکر،تدبر وبصیرت کے آئینہ دار، قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال، عظیم محب وطن درویش صفت صاحبزادہ محمداسحاق ظفر کی شخصیت تھی جو عوامی جذبے سے سرشاربھرپور زندگی گزار کر عظیم شا ن سے اس دنیا سے رخصت ہوئے،صاحبزادہ محمداسحاق ظفرمرحوم جہاندیدہ،فقیر منش،عوام دوست،تاریخ ساز اورہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔صاحبزادہ محمداسحاق ظفر مرحوم نے ستمبر 1944ء کو آزاد کشمیرکے مشہورروحانی خانوادے بنی حافظ شریف میں آنکھ کھولی،کشمیر اولیاء کی تصویر ہے، خانوادہ بنی حافظ اس کی عملی تفسیر ہے،یہاں حافظ جمال الدین رحمتہ اللہ علیہ، حافظ محمد جی ؒ، حافظ میا ں محمد یونس ؒ، حافظ عبدالقدوس ؒ ،حافظ عرفان دانش ؒ کے مزارات مرجع خلائق ہیں،ان مزارات مقدسہ پر دلی سکون میسر آتا ہے، دہائیوں سے یہاں محرم الحرام کے ایام میں شہداء کربلا کی یاد میں باقاعدہ محافل انعقاد پذیر ہوتی ہیں علاوہ ازیں ماہ نومبر میں ان بزرگ ہستیوں کے ایصال ثواب کیلئے بھی محافل انعقاد پذیر ہوتی ہیں، اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،ان محافل میں راقم کے داد ا محترم (پیر سیدحمیداللہ شاہ صاحب) گزشتہ ستر سال سے دوران محافل ختمات،اوراد فرماتے رہے ہیں اب یہ سلسلہ راقم کے والد (پیر سید محمدالیاس شاہ صاحب انجام دے رہے ہیں)۔،صاحبزادہ محمداسحاق ظفر مرحوم مذہبی پس منظر کے باعث ابتداء ہی میں خوف خدا اورعشق رسول ﷺ سے سرشار رہے،صاحبزادہ محمداسحاق ظفرنے ابتدائی تعلیم چکار سے حاصل کی میٹرک کے بعدمزید تعلیم کیلئے کراچی روانہ ہوئے آپ نے جامعہ کراچی سے اُردو اور سیاسیات میں ایم اے کیا،اسی دوران محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے،سیاسی منظر نامہ پر صاحبزادہ صاحب شہید ذوالفقار علی بھٹوکے نظریہ،فلسفہ اور شخصیت سے متاثر تھے، کچھ عرصہ بعد وہ میدان سیاست کے پرخار راستوں کا انتخاب کیا اور لوگوں کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے کیلئے انہوں نے اپنے آپ کووقف کردیا،، صاحبزادہ اسحاق ظفر انتہائی جذباتی،مخلص، خدا ترس، انسان تھے جن کا واسطہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو سے پڑا اور پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں انہیں بھی شامل ہونے کا ایک اعزاز حاصل ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صاحبزادہ صاحب انتخابی میدان میں ناقابل شکست رہے،فتح ہمیشہ ان کامقدر بنتی رہی،ایوان میں جب گفتگو کرتے تو فصاخت وبلاغت کا مرقع ہوتے،مذہبی اجتماعات میں لب کشائی کرتے تو اسلامی سکالر نظر آتے،معاشیات پر بولتے تو اس شعبہ کے محقق گردانے جاتے، الغرض ان کی زبان آواز خلق خدا تھی ان کے منہ سے نکلے الفاظ لوگوں کے اعصاب پر سوار رہتے اسی لیے مجاہد اول سردارعبدالقیوم خان نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ کم لوگوں کو اللہ نے وصف دیا ہوتا ہے کہ وہ بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں صاحبزادہ صاحب نے ساری زندگی غریبوں،مظلوموں کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، تلخ اور اونچی آواز سے انہوں نے کبھی اپنے خدمت گار سے بھی گفتگو نہیں کی، صاحبزادہ محمد اسحاق ظفر آزادکشمیر کے مقبول ترین عوامی رہنما نہیں تھے بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی اسی طرح پذیرائی عزت و احترام تھا، سب سے بڑھ کر یہ انہیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی اتنی قربت حاصل ہوئی کہ چاروں صوبوں میں انتخابی جلسے ہو یا عوامی رابطہ مہم شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے خطاب سے پہلے اور پاکستانی نامور سیاستدانوں کے بعد صاحبزادہ محمد اسحاق ظفر کو خطاب کرنے کیلئے بلانے کی ہدایات دیتی تھیں، لوگ ان کے خطاب شعر و شاعری، انقلابی نظمیں سن کر اس طرح محظوظ ہوتے تھے جس طرح کوئی ان کا اپنا قریبی مزاج آشناء ان کے مسائل بیان کررہا ہو، وکلاء کے پلیٹ فارم سے مارشل لاء کے خلاف پاکستان بھر میں صاحبزادہ اسحاق ظفر مرحوم نے طویل جدوجہد کی، آزادکشمیر میں چار جماعتی اتحاد کے پلیٹ فارم سے عوامی حقوق کی جدوجہد کی، مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم محکوم مسلمانوں کی آواز آزادکشمیر کے ایوانوں،چوکوں،چوراہوں میں بلند کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی متعدد فورم پر کی بلکہ جنیوا میں انسانی حقوق کے اجلاس سے ان کا خطاب آج بھی تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہے۔ صاحبزادہ محمد اسحاق ظفر نے ساری زندگی ایمانداری، دیانتداری، وضع داری، شائستگی اور سیاسی رواداری سے بسر کی۔ ان کا سیاست میں پالا قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو،سابق وزیراعظم سردارعبدالقیوم خان،سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید، مرحوم میاں غلام رسول، مرحوم راجہ ممتاز حسین راٹھور، مرحوم پیر علی جان شاہ جیسی قد آور شخصیات سے پڑتا رہا بلکہ ان چاروں کا چولی دامن کا ساتھ تھا یہ ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تصور کیئے جاتے تھے۔ صاحبزادہ اسحاق ظفر کی وفات سے آزادکشمیر کی سیاست میں جو خلاء پیدا ہوا وہ پُر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پیپلزپارٹی آزادکشمیر
کے سابق صدر،قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر، صدر چوہدری محمد یاسین، سابق وزراء سردار قمر الزمان، میاں عبدالوحید ان کے رفقاء میں شامل تھے لیکن اگر صاحبزادہ صاحب کی زندگی وفا کرتی تو وہ آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہونے کے علاوہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی رہنما اور دست وبازو ہوتے جس طرح وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے حقیقی ساتھی ثابت ہوئے تھے۔ سابق صدرپاکستان آصف علی زرداری بھی ان پر اتنا ہی بھروسہ کرتے تھے جتنا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے دور میں وہ خود ان پر کیا کرتی تھیں، ہر بحران سے نمٹنے کا انہیں خداکی ذات نے کمال تدبر دیا تھا، سابق وزراء، سید بازل علی نقوی،سردار جاوید ایوب، جاوید اقبال بڈھانوی، سابق امیدوار اسمبلی شوکت جاوید میر، سینئر صحافی روشن مغل،عبدالوحیدکیانی،اعجاز احمدمیر، سید طاہر حسین نقوی، کرنل شفیق مرحوم، سید شفیق کاظمی،خورشید اعوا ن ایڈووکیٹ ان کے انتہائی قابل اعتماد عزیزوں میں شامل تھے صاحبزادہ محمداسحاق ظفر مرحوم کے فرزند صاحبزادہ اشفاق ظفر پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے مرکزی سینئر نائب صدر ہیں اور سیاسی وراثت کو کماحقہ انجام دے رہے ہیں، صاحبزادہ اسحا ق ظفر مرحوم پانچ مرتبہ آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،1975 میں حلقہ ایل اے28سے آپ کامیاب ہوئے دوسری مرتبہ اسی حلقہ سے 1990میں اسمبلی ممبر منتخب ہوئے اورانہیں سپیکر اسمبلی کی ذمہ داری دے دی گئی،1991میں 20جولائی سے 29جولائی تک قائمقام صدر رہے،1996سے 2001تک سینئر وزیر آزادکشمیر رہے اور 2006میں قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے صدر بھی رہے،سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دوران آپ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں آپ کو اقتدار اورفنڈز کی پیشکشیں کی گئیں لالچ دیا گیا مگر آپ کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی آپ اکثر فرمایا کرتے تھے میں انسانیت کی برادری پر یقین رکھتا ھوں آپ ایک شعلہ بیاں مقرر تھے آپ اپنی تقاریر کے دوران اکثر یہ نظم پڑا کرتے تھے
یہ دنیا مسافر خانہ ہے
مہمان بدلتے رہتے ہیں.
قصہ تو وہی فرسودہ ہے
عنوان بدلتے رہتے ہیں.
ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صاحبزادہ اسحاق ظفر کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور آزادکشمیر کے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو ان کے اعلیٰ اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آج ان کی برسی کا دن ہے سولہ سال بیت جانے کے باوجود ان کی شریں گفتگو آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے، اپنی انتخابی مہم کی ابتداء میں ہمیشہ وہ ہمارے دادا محترم (الحاج پیر سیدحمیداللہ شاہ صاحب اور دادی محترمہ) کے پاس تشریف لاتے اور دعا کی درخواست کرتے۔
ہرانسان نے موت کا مزہ چکھنا ہے موت برحق ہے لیکن قارئین محترم یقین جانیئے ایسے انسانوں کیلئے ہی رب نے کائنات تخلیق کررکھی ہے جو اس کی مخلوق کیلئے آسانیاں بانٹتے بانٹتے خود حالات کی بے رحمی کی بھینٹ چڑ جائیں اور اُس بھینٹ چڑھنے والوں میں صاحبزادہ محمد اسحاق ظفر کا نام یہاں بھی سر فہرست ہے۔ ان کیلئے بوجھل دل و دماغ کے ساتھ اللہ کے حضور دست دعا بلند کرتے ہوئے خراج عقیدت کے طور پر یہ شعرپیش خدمت ہے
نگاہ بلند،سخن دلنواز،جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے