Tue. Apr 16th, 2024
265 Views

زکوۃ کا معنی ومفہوم،فرضیت،اہمیت اورمصارف
تحریر! علامہ سیدمحمداسحا ق نقوی
زکوۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے ایک پاکیزگی اور دوسرا نشوونما،کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں اوررکاوٹ بنیں ان کو دور کرنااوراس کے اصلی جوہر کو پروان چڑھانا،یہ دو تصورات مل کر زکوۃکا پورا مفہوم بناتے ہیں۔اسلامی اصطلاح میں اس کااطلاق دو معنوں پرہوتا ہے ایک وہ مال جو مقصدتزکیہ کے لئے نکالاجائے،دوسرا یہ کہ زکوۃ کے بجائے خود تزکیہ کا فعل ہے،نیز شرائط مخصوصہ کے ساتھ کسی مستحق آدمی کو اپنے مال کے لئے ایک معین حصے کا مالک بنادینا زکوۃ کہلاتا ہے۔امام راغب ؒ کے الفاظ میں مال کاوہ حصہ جو حق الٰہی کے طور پرنکال کرفقراء کو دیا جاتا ہے زکوۃ کہلاتا ہے،زکوۃ وصدقہ مفروضہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے،اسے زکوۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اوراس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے،زکوۃ کا لفظ عام صدقات کے معنوں میں ابتدائے اسلام ہی سے مروج ہوگیا تھا اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا،۸ ہجری میں زکوۃ کی فرضیت کی تصریح مل جاتی ہے،۹ہجری میں زکوۃ کے تمام قوانین واحکام مکمل ہوکرنافذہوگئے تھے (بحوالہ سیرت النبی ﷺ از سید سلمان ندوی ؒ)زکوۃ ہرزمانے میں دین اسلام کا اہم رکن رہی ہے،تمام انبیاء کرام کیطرح انبیائے بنی اسرائیل میں بھی اس کی سخت تاکید تھی،زکوۃ کے احکام صحف آسمانی اورتورات وانجیل دونوں میں موجود ہیں۔قرآن کریم میں زکوۃ کا ذکر ۲۴ مرتبہ آیا ہے،صلوۃ (نماز)کے ساتھ ۰۲ مرتبہ اورعلیحدہ علیحدہ ۲۲ مرتبہ جبکہ صدقہ وخیرات کاتذکرہ ۲۸ مرتبہ آیا ہے،اورزکوۃ کے مصارفین اورمستحقین کا ذکرقرآن کریم کی متفرق آیات میں ۸۱ مرتبہ آیا ہے،ان ساری آیا ت کا حوالہ (نام سورہ آیت نمبر اورتفصیلات ”جامع اشاریہ مضامین قرآن“جلد سوم میں ہے جسے محترم ڈاکٹر محمد اطہر محمد اشرف نے مرتب ومدون کیا اورشیخ زاید اسلامک ریسرچ سنٹر کراچی جامعہ کراچی نے اسے شائع کیا ہے)۔ زکوۃ صرف مسلمان صاحب نصاب پرفرض ہے کافر پر نہیں،زکوۃ چار قسم کے اموال پر فرض ہے (۱)سائمہ جانوروں پر،سائمہ سے مراد وہ جانور ہیں جو سال کا اکثر حصہ باہر چر کر گزارہ کرتے ہیں گھر میں نہیں کھاتے،سائمہ جانوروں میں اونٹ،گائے،بھینس،بھیڑ،بکری نرومادہ دونوں ہوتے ہیں۔۰۴ سے کم بکریاں ہوں تو زکوۃ واجب نہیں ہوتی یعنی بکریوں کا نصاب ۰۴ ہے،چالیس ہوں تو ایک بکری اوریہی حکم ایک سو بیس تک ہے،ایک سو اکیس بکریاں ہو تو دو اوردوسو ایک میں تین،چار سو میں چار پھر ہر سو پر ایک اورجو دونصابوں کے درمیان ہے معاف ہے،صاحب نصاب کو اختیار ہے کہ نردے یا مادہ لیکن سا ل بھر ے کم نہ ہو،بھیڑ،دنبہ بھی بکری میں داخل ہے،ایک سے نصاب پورا نہ ہوتا ہو تو دوسرے کو ملا کر پورا کیا جاسکتا ہے،لیکن بھیڑ اوردنبہ بھی سال سے کم کا نہ ہو،گائے،بھینس اوراونٹ کابھی علیحدہ علیحدہ نصاب ہے جنکی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں،علمائے کرام سے بھی دریافت کیا جاسکتا ہے راقم کا رابطہ نمبر اس کالم میں درج ہے،دیگر اموال میں دوسرے نمبر پر سونا اور چاندی،تیسرے نمبر پر ہرقسم کے تجارتی مال پر،چوتھے نمبر پر زمینی پیداوار پر،ان اقسام کے نصاب اپنے اپنے ہیں،نصاب مال کی وہ مقدار خاص ہے جس پر شریعت نے زکوۃ فرض کی ہے،چاندی،سونے اورتمام تجارتی مال کا چالیسواں حصہ زکوۃ فرض ہے،چاندی کانصاب دوسو درہم ہے جس کے ساڑھے باون تولے بنتے ہیں سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کے ساڑھے سات تولے بنتے ہیں،زکوۃ ادا کرنے کے وقت سونے چاندی کی جو قیمت ہوگی اس کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی قیمت خرید کے مطابق زکوۃ اداکرنا درست نہیں،تجارتی مال کا نصاب قیمت کے اعتبار سے ہوگا۔اگر مال کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زیادہ ہو تو سال گزرجانے پر اسکی زکوۃ چالسیواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد دینا فرض ہے۔زکوۃ کے مصارف یعنی مستحقین زکوۃ کی تفصیل قرآن کریم کے ۰۱ ویں پارہ سورۃ توبہ کی آیت نمبر ۰۶ میں ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے یہ صدقات یعنی زکوۃ دراصل فقیروں کیلئے ہے اورمسکینوں کیلئے اوران لوگوں کیلئے ہے جو زکوۃ کی وصولی اورتقسیم پر مامور ہوں اوران کیلئے جن کی تالیف قلبی یعنی دلجوئی مطلب ہو،نیز یہ غلاموں کے آزاد کرانے،قرض داروں کی مدد کرنے میں اوراللہ تعالیٰ کیراہ میں کام کرنیوالوں کیلئے اورمسافروں کیلئے،یہ ایک فریضہ ہے،اللہ تعالیٰ کی طرف سے اوراللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اوردانا اور بینا ہے۔یہ آٹھ مصارف زکوۃ ہیں جو مستحقین زکوۃ ہیں،فقیر سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کیلئے دوسروں کی مدد کا محتاج ہو،یہ لفظ تمام حاجت مندوں کیلئے عام ہے خواہ وہ جسمانی معذوری یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج اعانت ہوگئے ہوں۔یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اوراگر انہیں سہارہ مل جائے تو وہ آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتے ہوں مثلا ً یتیم بچے،بیوہ عورتیں،بے روزگار لوگ اوروہ لوگ جو وقتی حادثات کاشکار ہوچکے ہوں،مسکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی نسبت زیادہ خستہ حال ہوں،نبی کریم ﷺ نے اس لفظ کی تشریح فرماتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امدا د قراردیا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ رکھتے ہوں اورسخت تنگ دست ہوں مگر ان کی خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہ دیتی ہو،تیسرے نمبر پر عاملین،وہ لوگ ہیں جو زکوۃ وصول کرتے ہیں اووصول شدہ مال کی حفاظٹ کرنے یا ان کا حساب وکتاب رکھنے اورانہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے مامور ہوں ایسے لوگ خواہ فقیر ومسکین نہ ہوں ان کی تنخواہیں زکوۃ کی مد سے ادا ہونگی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ذات،اپنے خاندان بنی ہاشم پرزکوۃ کا مال حرام قراردیا تھا آپ کے خاندان،اہل بیت آل رسول ﷺ سادات کرام اگر صاحب نصاب ہوں تو زکوۃ کی ادائیگی ان پرفرض ہے لیکن اگر وہ غریب ومحتاج،مفلوک الحال قرض دار،یامسافرہوں تو زکوۃ لینا ان کیلئے حرام ہے،البتہ اس امر میں اختلا فہے کہ خود سادات کی زکوۃ مستحقین سادات لے سکتے ہیں یا نہیں،امام ابو یوسف ؒ کی رائے ہے لے سکتے ہیں،پاکستان اورآزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچنے والے سادات ممبران،اورآل رسول سے محبت ومودت رکھنے والے ممبران کو اس سلسلہ میں قانون سازی کرتے ہوئے خمس بل منظور کراناچاہیے تاکہ سادات کرام کے مستحقین امداد لوگ زکوۃ لینے سے محفوظ ہوجائیں۔اوران کی جگہ دیگر غیر سادات مستحقین زکوۃ سے استفاد ہ کرسکیں،انتخابات کے موقع پر سادات کرام کو یہ امر ملحوظ نظررکھنا چاہیے نیز اگر حکومتیں اس اہم ترین مسئلہ پر توجہ نہیں دیتیں تو اہل ثروت سادات کرام ایک ویلفیئر فنڈقائم کرکے غریب ونادار سادات کو زکوۃ خوری سے بچائیں شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات۔
رقاب سے مراد مکاتیب غلام کو زکوۃ دینا تاکہ مال زکوۃ سے ادائیگی کرکے وہ اپنی گردن غلامی سے چھڑا سکے،غارمین سے مراد قرض دارلوگ ہیں جن پر اتنا قرض ہے کہ اسے ادا کرنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے،فی سبیل اللہ سے مراد ایسے سارے امور جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں انجام پذیر ہوتے ہیں مجاہدین اسلام اوربالخصوص علم دین پڑھنے والے اورپڑھانے والے جنہوں نے اپنے آپکو اسی کام کیلئے رکھا ہوا ہے،اورابن سبیل سے مراد مسافر ہے جس کے پاس زاد راہ نہ رہا ہو وہ مستحق زکوۃ ہے۔زکوۃ اداکرنے والوں کیلئے مال ودولت میں اضافے اوراجر عظیم کی بشارت ہے،اورزکوۃ ادا نہ کرنے والے کیلئے سخت سزااورعذاب کی وعید ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں،زکوۃ ادا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اوریوم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم دیں گے (سورۃ النساء آیت نمبر ۲۶۱)جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ بخل ان کیلئے اچھا ہے بخل تو ان کے حق میں براہے عنقریب قیامت کے دن ان کا مال ان کیلئے وبا ل بن جائے گا (آل عمران آیت نمبر ۰۸۱)اسلامی ریاست میں من جملہ دیگر عوامل چار امور کو بڑی اہمیت حاصل ہے،یہ چار چیزیں اسلامی ریاست کی شناخت اورپہچان ہیں،(۱)نظام صلوۃ،(۲)نظام ذکوۃ (۳)نظام تعلیم (۴)اورنظام عدل اگر یہ چا روں نظام اپنی حقیقی روح کے ساتھ کارفرما ہوں تو ایسی ریاست خوشحالی،امن وسلامتی کا گہوارہ بن جاتی ہے،اسلامی ریاست میں اسلامی معاشرے کے قیام واستحکام کیلئے نہ صرف حکومت بلکہ ہر خاص وعام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،مشاہد ہ میں آیا ہے کہ بعض اکاونٹ ہولڈرز زکوۃ کٹوتی سے بچنے کیلئے یکم رمضان سے پہلے ڈاکخانوں اوربینکوں سے اپنی رقوم نکال لیتے ہیں اورچند دنوں بعد دوبارہ جمع کرالیتے ہیں ان کا یہ اقدام قطعا ً درست نہیں ہوتا،علمائے کرام بالخصوص خطباء حضرات جمعتہ المبارک کے خطابات میں اس موضوع پر تسلسل کے ساتھ گفتگو فرمایا کریں تاکہ ہماری ریاست میں نظام زکوۃ کو استحکام حاصل رہے اوراس کے ساتھ ساتھ نظام صلوۃ،نظام تعلیم،نظام عدل بھی استوار ہو تاکہ مکمل اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے اوراسلامی ریاست مستحکم ہوسکے۔

By ajazmir