ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں رات (لیلتہ المبارکہ) کی فضیلت و خصوصیات
تحریر! سید محمداسحاق نقوی
قرآن کریم کے 25 ویں پارے کی سورہ الدخان کی ابتدائی چھ آیات کا ترجمہ قارئین کیلئے پیش ہے ”حم ٓ،قسم ہے کتاب مبین کی (جو احکام الٰہی کے بیان کرنے میں واضح کتاب ہے)بے شک ہم نے نازل اسے برکت والی رات میں کیونکہ اس کتاب یعنی قرآن مجید کے ذریعے ہمیں لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرانا مقصود تھا،اسی برکت والی رات میں ہر حکمت والا کا م (رزق واجل اوردیگر امور متعلقہ نظام کائنات)علیحدہ علیحدہ کرکے لکھے جاتے ہیں،جو حکم جاری ہوتا ہے ہمارے ہاں سے،اوراس قرآن کو اس لئے اتارا کہ ہمیں آپ کو سارے جہانوں کیلئے رسول بنا کر بھیجنا مقصود تھا،آپ کو رسالت اورقرآن عطا کرنا آپ کے رب کی خاص عنایت ورحمت ہے بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اورجاننے والا ہے،(القرآن)
شعبان المعظم کی 15 ویں رات کو ”لیلۃ المبارکہ“اور رمضان المبارک کی 27 ویں رات ”لیلتہ القدر“کہا جاتا ہے یہ دونوں راتوں کے دونوں نام قرآن کریم نے بتائے ہیں نیز یہ دونوں راتیں نزول قرآن کی ہیں۔،علمائے راسخین ومفسرین نے اسکی تطبیق یوں کی ہے کہ لیلۃ المبارکہ(پندرہویں شعبان المعظم کی رات) میں قرآ ن مجید لوح محفوظ میں منتقل ہوا اورلیلۃ القدر(رمضان المبارک کی 27ویں رات) میں قرآن کریم کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیاکی طرف ہو اجہاں سے موقع و محل اورضرورت کے مطابق سید نامحمد رسول اللہ ﷺپرنازل ہوتا رہا،اور اسی طرح 23 سال کے عرصہ میں قرآن کریم کا نزول مکمل ہوا،
احادیث مبارکہ کی روشنی میں خصوصیت کے ساتھ پندرہویں رات شعبان المعظم کی فضیلت سورہ الدخان کی متذکرہ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ لیلۃ المبارکہ میں (شب برات)سال بھر کے تما م حکمت بھرے امورکافیصلہ کیاجاتا ہے اس سال زندہ رہنے والے اورحج کرنیوالے سب کے نام کی فہرست تیار کی جاتی ہے جس کی تعمیل میں کسی قسم کی ذرا سی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب نبی کریم ﷺقیام وجلوس یعنی کھڑے بیٹھے عباد ت و ذکرواذکار میں مصروف رہے یہاں تک آپ کے پاؤں مبارک متورم (سوج)ہوگئے میں نے آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ ﷺمیرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں،کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اگلی اور پچھلی ہر خطا سے پاک وصاف نہیں فرمایا؟ آپ اس قدر عبادات میں جانفشانی فرماتے ہیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں،اے عائشہ تو نہیں جانتی اس رات میں کیا کچھ ہے؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا جی ہاں فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس رات میں ہر پید اہونے والا اور مرنے والا لکھا جاتا ہے،اس رات میں بندوں کے واسطے رزق اترتا ہے اور اسی شب میں بندوں کے اعمال وافعال آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہرشب کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پرجلوہ افروز ہوتا ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے لیکن شعبان المعظم کی پندرہویں شب سرشام یعنی مغرب ہی کے وقت سے طلوع فجر تک آسمان دنیا پرجلوہ افروز و رونق افروز رہتا ہے (اپنی شان وشوکت کے مطابق)اوراپنے بندوں کو عظیم ترین نوازشات وانعامات سے نوازتاہے،ابن ماجہ میں حضرت ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی مرقوم ہے کہ کوئی رات لیلۃ القدر کے بعد پندرہویں شعبان کی شب سے زیادہ افضل نہیں ہے اس شب میں رب العزت آسمان دنیا پرجلوہ افروز ہوتا ہے (جیسا کہ اسکی شان وعظمت کے لائق ہے)اورمغفرت طلب کرنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے بشرطیکہ دعا کرنے والا کینہ پرور،قاطع رحم(قرابت داروں سے قطع تعلقی کرنے والا) اوربدسلوک نہ ہو،ماہ شعبان المعظم میں ہرروز وشب رحمت خداوندی کا نزول خوب ہوتا ہے مگر ان اہم روز وشب میں اہم ترین شب برات ہے جو 14 شعبان المعظم کادن گزرنے کے بعد آنے والی پندرہویں شب ہے،اسی رات اللہ عزوجل کی رحمت اپنے عبادت گزار بندوں پر بے پایاں نازل ہوتی ہے،انعامات خداوندی کا نزول ہوتا ہے،اسی رات کا ہرلمحہ اپنے اندر ہزاروں برکات وانوار رکھتا ہے،رسالت مآب ﷺکاارشاد مبارک ہے کہ شعبان المعظم کی 15 ویں شب کو غنیمت جانو کہ وہ ظاہر رات ہے اورلیلتہ القدر اگرچہ بڑی فضیلت والی ہے لیکن پوشید ہ ہے،تمہیں چاہیے کہ اس رات میں نیک اعمال اوراچھے افعال کروں تاکہ قیامت کے دن اس کا اجرپاؤ اورندامت وشرمندگی سے بچے رہو،اس کیلئے خوشخبری ہے جو اس رات میں عبادت کرے (بحوالہ سبیل الحسنات)فرمان رسالت ﷺ ہے کہ نصف شعبان المعظم کی شب رب کائنات اپنے عبادت گزاربندوں پر خاص نظر رحمت فرماتا ہے،مزید فرمایا کہ جن چار راتوں میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں وبرکتوں کے دروازے خصوصیت کے ساتھ کھول دیتا ہے ان میں سے ایک رات پندرہویں شعبان المعظم کی رات ہے (بحوالہ کتاب غنیتہ الطالبین و نزہتہ المجالس)
حضور رحمت اللعالمین ﷺکا ارشاد مبارک ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نصب شعبان المعظم یعنی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر اپنے فضل وکرم اوررحمت خاص سے نزول فرماتا ہے (جیسا کہ اسکی شان وعظمت کے لائق ہے)اوربنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے (عرب میں ایک قبیلہ کا نام بنی کلب تھا جن کے ہاں بکریاں بکثرت ہوا کرتی تھیں) (بحوالہ سنن ابن ماجہ وترمذی شریف)
سید ناعلی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ”جب شعبان المعظم کی پندرہویں رات ہو تو اس میں قیام کرو یعنی نوافل پڑھو،اوردن کو روزہ رکھو،بے شک اللہ تعالیٰ اس رات آسمان دنیا کی متوجہ ہو کرنزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت خاص کے لحاظ سے اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے)اوراس رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک فرماتا ہے،ہے کوئی طالب بخشش،جسے بخش دوں،ہے کوئی طالب رزق،جسے روزی دوں،ہے کوئی مصیبت زدہ اورآفت رسید ہ،جسے عافیت دوں،ہے کوئی حاجت مند اورضرورت مند جسے عطا کروں،نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص شب برات کو عبادت کیلئے بیدار رہتا ہے اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن اورکے دل مردہ ہونگے (بحوالہ کتاب سبیل الحسنات)حضور سرور کائنات ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص دوزخ سے نجات چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ شعبان المعظم کی 15 ویں شب کو اللہ تعالیٰ کی خوب عبادت کرے،اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں پر رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اورسب کو بخش دیتا ہے مگر مشرک،جادوگر،نجومی،بخیل،شرابی،سود خور،زانی،اورفتنہ باز کو نہیں بخشتا جب تک وہ سچے دل سے توبہ نہ کرلیں۔ نیز روایت ہے کہ شعبان المعظم کی چودہ تاریخ کو نماز عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے باوضو حالت میں چالیس مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت خاص سے چالیس سال کے گناہ (صغیرہ)معاف فرمادیتا ہے،،گناہان کبیرہ سے سچی توبہ کرنے اور مغفرت طلب کرنے کیلئے یہ رات بڑی غنیمت والی ہے۔

179 Views