Fri. Mar 29th, 2024
2,216 Views

ہٹیاں بالا(اعجاز احمد میر،خصوصی رپورٹ)ہٹیاں بالا کے سینئر صحافیوں کی چار رکنی ٹیم آزاد کشمیر کے ضلع جہلم ویلی کے گاﺅں کنیری لانگلہ میں جنسی زیادتی کا

نشانہ بننے والی دس سالہ معصوم بچی کے پاس پہنچ گئی دلوں کے ہلا اور آنکھوں کو نم کر دینے والے حقائق منظر عام پر آگئے۔تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز ہٹیاں بالا کے سینئر صحافیوں کی ایک ٹیم نواحی گاﺅں کنیری لانگلہ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی معصوم بچی مسماة(س)اور ان کی بہن مسماة(م) کے پاس پہنچی جہاں پر دونوں بہنیں انتہائی افسردہ،شدید دباﺅ کا شکار نظر آئیں جب جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی دس سالہ بچی کی بڑی بہن سے انکا موقف جانا گیا تو انھوں نے انتہائی سہمے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے واقعہ ہوتا ہوا نہیں دیکھا میری چھوٹی بہن نے درندگی میں ملوث سعود کی بیوی کو سب سے پہلے اس واقعہ کے بارہ میں بتایاپھر سعود کی بیوی نے ہمیں اس بارہ میں آگاہ کیا ہم چاہتے ہیں کہ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد گاﺅں اور ہماری برادری کے معززین نے ایک جرگہ کیا جس میں طے پایا کہ دونوں لڑکوں کو گاﺅں بدر کرنے کے علاوہ وآپس آنے پر دو دو لاکھ روپے جرمانہ ہو گا اور انھیں مقامی سطح پر سزا بھی دی جائے گی جرگہ ختم ہوتے ہی وہاں لڑائی ہو گئی اور دونوں لڑکے گاﺅں سے فرار ہو گئے جس کے بعد ہم علاقہ کی سماجی شخصیت مشتاق عباسی کے گھر گئے اور انھیں سارے واقعہ سے آگاہ کیا تو انھوں نے ہمیں قانونی کارروائی کا مشورہ دیتے ہوئے پولیس کو واقعہ کے بارہ میں آگاہ کرتے ہوئے گاﺅں میں بلا لیا جس کے بعد پولیس ہمیں لیکر گئی جہاں پر ہم نے انھیں ساری تفصیل بتائی جب متاثرہ بچی مسماة(س) سے موقف جانا گیا تو انھوں نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ میں گھر میں سوئی ہوئی تھی مجھے بیڈ سے اٹھا کر گھر کی چھت پر لے گئے اور میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر میرے ساتھ غلط کام کیا اور دھمکی دی کہ یہ بات کسی کو نہیں بتانا ورنہ ہم بڑی بہن مہوش سے مار ڈلوائیں گے جس ڈر کے باعث میں وقتی طور پر خاموش ہو گئی صحافیوں کی ٹیم ابھی متاثرہ معصوم بچی اور اس کی بہن کا موقف لے ہی رہی تھی کہ اس دوران ایک شخص نے وہاں پہنچ کر صحافیوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بلاوجہ واقعہ کو اچھال رہے ہیں جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب کس لیے اس واقعہ کو میڈیا کی زینت بنایا جا رہا ہے لانگلہ گاﺅں جانے والی صحافیوں کی ٹیم کے سامنے آنے والے حقائق کے مطابق زیادتی کا شکار ہونے والی دس سالہ بچی اور اسکی بڑی بہن کو بااثر افراد کی جانب سے شدید دباﺅ کے ساتھ ساتھ خوف وہراس میں مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے بااثر جرگہ دار اور ملزمان پارٹی قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے دونوں یتیم بچیوں کو اس قدر ڈراچکے ہیں کہ ان کے موقف میں تبدیلی دیکھنے کو ملی شاہد اس کی بنیادی وجوہات دونوں بہنوں کے پاس وسائل کی کمی اپنی چھت نہ ہونا ، والد کا وفات پا جانا،والدہ کا زہنی معذور ہونا شامل ہے جن یتیم بہنوں کے پاس دو وقت کا کھانا نہ ہو وہ کیسے درندوں اور مافیا کے خلاف جنگ لڑ سکتی ہیں شاہد انھیں بھی یہ باور کروایا گیا ہے کہ آپ کے پاس پیسے نہیں ،دو وقت کا کھانا نہیں ،رہنے کے لیے چھت نہیں اب جو ہو گیا سو ہو گیا اس معاملہ کو ختم کردو ورنہ تم لوگوں کے ساتھ بہت برا ہو گا دونوں بہنوں کی بے بسی انکے چہرے پر ڈر اور خوف کے بعد حکومت آزاد کشمیر، مخیر حضرات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی قابل افسوس ہے ایسے موقعہ پر حکومت آزاد کشمیر، مخیر حضرات اور انسانی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی تنظیموں کو سامنے آکر ایسی یتیم بچیوں کی رہائش اور انکی جان کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہیے اور انھیں انصاف کی فراہمی کے لیے انکی ہر ممکن مدد کرتے ہوئے ان کے دل و دماغ سے خوف کو نکال کر درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تب ہی جاکرایسے افراد کا قلع قمع ممکن بنایا جا سکتا ہے جو بھائی کہنے والی معصوم بہن کو بھی درندگی کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے بعض مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ دونوں بہنیں بے بس ہیں اس واقعہ کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج ہونا چاہیے تھا تانکہ کوئی بھی ان بہنوں کی بے بسی ،کمزوری اور غربت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرتا اس حوالہ سے وزیراعظم، چیف سیکرٹری،اور آئی جی آزاد کشمیر کو سخت ترین اقدامات اٹھانے چاہیے تانکہ بن باپ کے بچیوں کو انصاف گرفتار ملزمان اور اس سنگین نوعیت کے واقعہ کا جرگہ کرنے والے عبرت کا نشان بن پائیں اور آئندہ ریاست بھر میں کسی میں اتنی ہمت نہ ہو کہ وہ ایسی درندگی اورایسے واقعہ کا جرگہ کرنے کی کوشش کرے۔۔۔

۔

By ajazmir