Thu. Apr 25th, 2024
1,034 Views

“تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ”
تحریر:-
سید طاہر نقوی
——————-
مختلف نوع کی خبروں کا سرعت کے ساتھ بہم رسانی کا عمل تیکنیکی مدارج کی انتہا پر ہے.
برقی زینے چڑھتی, فنی مہارتیں رکنے کا نام نہیں لیتیں, ایسے میں ریاست سے ملک اور سارے عالم کا منظر نامہ لمحہ بہ لمحہ آنکھوں کے سامنے پیش ہوتا جا رہا ہے.
خبروں کا بڑا حصہ وقار آدمیت کی سوختگی کے ساتھ
انسانیت کو تیرہ و تار کرنے…………
ہستی کے تار و پود کے بکھرنے……..
نازک آبگینوں کے ٹوٹنے………………..
عصمتوں کے تاراج کئے جانے………..
اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے…………
ظلم و وحشت کے سائے دراز ہونے…..
جان و مال, عزت و تکریم کے عدم تحفظ اور قانون کی عملداری کے فقدان سے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ,
اور برقی ابلاغ کی چکا چوند روشنیوں کے پیچھے انہی اخلاق باختہ اور حیا سوز سیاہ خبروں کا سمندر, دن اور رات کی چوبیس ساعتوں میں لمحہ لمحہ موجزن رہتا ہے.
دو صد کے لگ بھگ ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں.
جو اقوام عالم میں “قوم در قوم” کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتے ہوئے باوقار شمار کئے جاتے ہیں.
ریاست کا یہ حصہ, اور ملک پاکستان میں ایسی کوئی اجلی صورتحال دیکھنے کو آنکھیں ترس رہی ہیں.
ایک ہجوم ہے , بے ہنگم ہجوم….
کوئی سمت نہیں…..
کوئی جہت نہیں….
مقاصد معدوم…….
نصب العین عنقا….
اخلاقیات کے جنازوں کا کلچر زوروں زور پروان چڑھ رہا ہے.
فرد سے گروہ اور گروہ سے معاشرے, بیس کروڑ کے “ہجوم” تک,
بد اخلاقی, بد چلنی, اقدار کی تباہی, روایات کی تارا تاری,
ہمہ قسم مقدسات کی توہین, باہمی دلآزاری, فرقہ پسندی,
حق تلفی, ظلم و تعدی, عدم برداشت, بے صبری اور آدمیت کے چیتھڑے اڑانے کا نہ ختم ہونے والا سفر ہے, جو جاری و ساری ہے اور “شوق سفر ان راہوں ” کا ایسا, جو کسی طور کٹنے میں نہیں آ رہا.
اداروں میں بیٹھے ذمہ داران بے حس اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے کہیں بے خبر اور کہیں لاپرواہی کے رسیا….
جرائم کی ایسی تاویل دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں پہلی بار سنی گئی ہو گی جو لاہور کے سی سی پی او کی گوہر افشانی کے نتیجہ میں دنیا نے سنی,
واحسرتا…..,
اس شب کی سیاہی کہتی ہے,,
ابھی اور بڑھے گی تاریکی…….
سونے والو… جاگ اٹھو……….
حالات اشارہ کرتے ہیں……..!!!

اس بات میں بھی شک نہیں کہ ان حالات میں بھی آٹے میں نمک کی مانند صاحبان کردار اور اصول پسند لوگ موجود ہیں اور روایات پسند خاندان اور طبقات بھی ان معاشروں کا جوہر ہیں. لیکن یہ قلیل تعداد اس ہجوم کی مٹبت تبدیلی کی سکت نہیں رکھتی,
حکمران اور بالا دست طبقات راہ راست پر انے کا تہیہ کر لیں تو ہجوم “قطار” کی جانب رفتہ رفتہ متوجہ ہو سکتا ہے.
مراعات یافتہ طبقے تمام تر بربادیوں کا اصل باعث ہیں.
جن کے چونچلے اور اٹھکیلیوں سے بیہودہ فیشن کا ارتقاء جاری ہے.

عالمی تمدن کا ناقابل بدل قانون ہے کہ خواص کی راہ اور چلن, عوام کی چلن کا سبب ہوا کرتا ہے.
ہم محدود دائرہ کار کے لوگ ہیں. جو تڑپتے ہیں. کڑھتے ہیں.
بے بس ہیں. اور ماتم کناں ہیں.
لکھتے, بولتے اور ترغیبی امور کو اوڑھنا بچھونا بنائے چلے جا رہے ہیں.
محسن بھوپالی نے کہا تھا……..

ہماری جان پر دوہرا عذاب ہے محسن……..
کہ دیکھنا ہی نہیں, ہم کو سوچنا بھی ہے….!!

By ajazmir