Thu. Mar 28th, 2024
470 Views

اطہر مسعود وانی
آزاد کشمیر حکومت کی کابینہ کے15جولائی 2020کے اجلاس کو بلاشبہ تاریخ ساز اجلاس قرار دیا جا سکتا ہے جس میں متنازعہ ریاست جموںو کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے باشندوں کی بہترین ترجمانی کی گئی ہے۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی صدارت میں آزاد جموں و کشمیر کابینہ کے غیر معمولی اجلاس میں آزاد کشمیر حکومت کی کابینہ نے وزارت امور کشمیر کی طرف سے موصولہ مسودہ آئینی ترمیم کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ آئینی امور باہمی مشاورت ، عوامی امنگوں کے مطابق اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کی منشا کے مطابق ہی طے کیے جاسکتے ہیں جس کے لیے اعلی ترین سطح پر باہمی مشاورت کی ضرورت ہے ۔حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق ہندوستان کے جارحانہ اقدامات کے تناظر میں ریاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف بسنے والی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی خاطر حکومت آزادکشمیر کو مزید بااختیار بنانے کے لیے باہمی مشاورت سے اقدامات اٹھائے جائیں ۔

اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ” آزاد جموں وکشمیر کابینہ کا غیر معمولی اجلاس مورخہ 15جولائی 2020 زیرصدارت جناب وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموںو کشمیر کابینہ کمیٹی روم ( وزیر اعظم سیکرٹریٹ ) مظفرآباد میں منعقد ہواجس میں وزارت قانون و وزارت امور کشمیر حکومت پاکستان کی جانب سے موصولہ مسودہ آئینی ترمیم محررہ 22جون 2020پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا ۔ کابینہ نے مجوزہ مسودہ کی نسبت بذیل فیصلہ جات کیے ۔ کابینہ نے مسودہ آئینی ترمیم سے متفقہ طور پر کامل اتفاق نہیں کیا ۔ کابینہ کی متفقہ رائے ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کا وطن عزیز پاکستان کے ساتھ نظریاتی تعلق کشمیری عوام کی لازوال امنگوں کا مظہر ہے ۔ جو کسی فرد، جماعت یا حکومت کی ملکیت نہیں ہے بلکہ ریاست کے دونوں طرف بسنے والے لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہے اور یہ وابستگی حضرت قائداعظم محمد علی جناح، بانی پاکستان کے ویژن سے مکمل مطابقت رکھتی ہے ۔کابینہ نے مزید اظہار کیا کہ حکومت ہندوستان کی جانب سے 5 اگست 2019کے اقدامات کی بناپر مسئلہ کشمیر کی مسلمہ بین الاقوامی حیثیت اور ریاستی عوام کی منشااور بنیادی حقوق کی پامالی ہوئی ہے ۔ حکومت ہندوستان نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ریاست جموں وکشمیرمیں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے بھی صریحامتصادم ہے ۔ اسی تناظر میں ریاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف بسنے والی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی خاطر حکومت آزادکشمیر کو مزید بااختیار بنانے کے لیے باہمی مشاورت سے اقدامات اٹھائے جائیں ۔کابینہ نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ آئینی امور باہمی مشاورت ، عوامی امنگوں کے مطابق اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کی منشا کے مطابق ہی طے کیے جاسکتے ہیں جس کے لیے اعلی ترین سطح پر باہمی مشاورت کی ضرورت ہے ۔کابینہ نے متفقہ طور پر راجہ محمد فاروق حیدر خان صاحب ، وزیر اعظم آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر کی قیادت پر کامل ومکمل اطمینان کا اظہار کیا۔”

آزاد کشمیر میں14ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے ایک عرصہ سے کشمکش ، تشویش کی صورتحال نظر آ رہی تھی اور اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی جاری تھیں۔ ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ وزارت امور کشمیر کی طرف سے ارسال کردہ 14ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت پر مختلف حوالوں سے سخت دبائو ڈالا جا رہا ہے اور ان یکطرفہ آئینی ترامیم کو منظور کرنے کے لئے مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سے پہلے آزاد کشمیر حکومت وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی قیادت میں تاریخ ساز 13ویں آئینی ترامیم کرا چکے تھے ،جس میں آزاد جموں کشمیر حکومت کو انتظامی اور مالیاتی طور پر با اختیار کرنے کے امور شامل تھے۔

یوں اب آزاد کشمیر حکومت نے ریاست جموں وکشمیر اور کشمیر کاز کے حوالے سے ایک بڑا اور جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے آئین میں ترامیم ،پاکستان کے آئین کی دفعہ257کی منشاء کے مطابق ، حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان اعلی سطحی مشاورت سے کی جا سکتی ہیں۔یہاں یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ257میں کیا کہا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ257 کے الفاظ یہ ہیں کہ ”جب ریاست جموں و کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے ،پاکستان اور ریاست کے تعلقات کا تعین ریاست کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔
(257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir.-When the people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and that State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.)
یعنی آئینی دفعہ257میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاست کے لوگ جب پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان کے ساتھ ریاست کے تعلقات کا تعین بھی ریاست کے لوگوں کی مرضی کے مطابق ہو گا۔ ریاست جموںو کشمیر سے متعلق پاکستان کے آئین کی اس دفعہ کی منشاء ،غرض و غائیت یہی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل اور مسئلہ کشمیر کے حل تک تمام امور میں ریاستی لوگوں کی رائے کا احترام کرے گا۔اس اصول کی روشنی میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ آزاد جموں وکشمیر سے متعلق امور میں بھی پاکستان کی طرف سے ریاست کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔اس اصول کے مطابق حکومت پاکستان آزاد کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کو مقدم رکھنے کی پابند ہے اور آزاد کشمیر حکومت پر یکطرفہ فیصلے مسلط کرنا پاکستان کے آئین کی دفعہ257کی صریحا خلاف ورزی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کابینہ کی طرف سے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے جارحانہ اقدامات سے پیدا شدہ مسئلہ کشمیر کی نازک صورتحال کے تناظر میں آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے سے کردار دیا جائے۔حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف بسنے والی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی خاطر حکومت آزادکشمیر کو مزید بااختیار بنانے کے لیے باہمی مشاورت سے اقدامات اٹھائے جائیں ۔

آزاد کشمیر حکومت کی73سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کشمیر کاز اورآزاد کشمیر حکومت کے حقوق و اختیارات سے متعلق واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا گیا ہے۔یوں ایک واضح موقف دیتے ہوئے پس پردہ ان سازشوں اور دبائو سے مجبور کرنے کی ان کوششوں کو بھی کمزور کیا گیا ہے جس کے نتائج کشمیریوں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بھی وسیع تر مفادات کے منافی ہو سکتے ہیں۔

یہ بات واضح رہے کہ کشمیریوں کی تاریخی قرار داد الحاق پاکستان میں بھی پاکستان کے ساتھ بطور ایک ریاست کے الحاق کی بات کی گئی ہے ،جس میں دفاع،امور خارجہ،مواصلات اور کرنسی کے علاوہ باقی تمام امور ریاست جموں و کشمیر حکومت کے ہوں گے۔پاکستان کے آئین کی دفعہ257 سے بھی کشمیریوں کی مرضی کو تسلیم کئے جانے کی آئینی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس طرح اب یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو ریاست کے دونوں حصوں کے لوگوں کی نمائندگی کے طور پر کشمیر کاز کے حوالے سے کردار دیا جائے اورآزاد کشمیر کے آئینی امور کے حوالے سے بھی پاکستان کے آئین کی دفعہ257کی پاسداری کی جائے۔

By ajazmir