Fri. Apr 26th, 2024
734 Views

تحریر۔پروفیسر بابر بلال کنیڈا
ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چھکنا ہے ۔یہ ایک عالمگیر سچائی ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور ہر انسان کو اسے چھوڑ کر جانا ہے۔دراصل دنیا ایک سٹیج
کی مانند ہے اور انسان اس سٹیج کے کردار ہیں۔ہر انسان دنیا میں آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔بحرحال وہ لوگ جو اپنا کردار
بخوبی نبھاتے ہیں بھلائے نہیں بھولتے۔ماں اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ عظیم نعمت ہیں۔اور جب ماں کا سایہ سر پر نہیں رہتاتو آپ عمر کے جس سٹیج پر ہوں تنہا محسوس کرتے ہیں۔

محترمہ والدہ کو فوت ہوئے ایک سال ہو چکا اور اُن کی پہلی برسی پر سوچا کے اُن کی زندگی کے چند پہلو اجاگر کروں۔ماں جی کا شمار اُن لوگوں
میں ہوتا ہے جو اپنی ساری زندگی انسانی خدمت میں بغیر کسی مفاد کے گزار دیتے ہیں۔والدہ کی زندگی کے سیاسی، سماجی اور مذہبی تینوں پہلو
نمایاں تھے اور حلقہ احباب اُن کو پیار سے (آئشہ آپا)کے نام سے پکارتے تھے اور وہ حلقہ میں اس نام سے پہچانی جاتی تھیں۔یہ ۱۹۸۰ء کی
کی دہائی کی بات ہے ۔جب آزادکشمیر میں سیاسی اور سماجی شعور کی بے حد کمی تھی اور بلخصوص خواتین اس میدان میں بلکل موجود نہ تھیں۔
(یہ اور بات کے سوشل میڈیا نے اب سب کو لیڈر بنا دیا ہے)۔اس دوران والدہ محترمہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ آزاد کشمیر کی اُن اولین
خواتین میں شامل ہوئیں جو ضلع مظفرآبادسے ڈسٹرکٹ کونسلر ممبر ضلع کونسل بنیں۔ان کے ساتھ دیگر خواتین میں بیگم منشی علی گوہر اور موجودہ وزیرحکومت بیگم نورین آرف بھی ڈسٹرکٹ کونسلر رہیں۔انہیں دوبارہ ڈسٹرکٹ کونسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔اُس وقت کی ہمارے علاقے کی انتہائی اہم شخصیت ممتازعباسی مرحوم کا کردار اس حوالے سے انتہائی اہم تھا اور محمد خان کیانی مرحوم بھی والدہ کو اس عہدے پر پہنچانے میں پیش پیش رہے۔والدہ نے اُس عرصہ کے درمیان سکولوں کی تعمیر اور ترقی پر خاص توجہ دی اور تعلیم عام کرنے میں کردار ادا کیا۔
اپنی ذاتی زمین سرکاری سکول کی عمارت کے لیے مختص کر دی۔اُس دور میں ہمارا گھر علاقے بھر کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا محور تھااور جو
بھی اہم شخصیت جہلم ویلی ہماری یونین کونسل یا حلقہ انتخاب کا دورہ کرتی ہمارے گھر میں قیام پزیر ہوتی۔ہمارے گھر میں ہر وقت ایک میلے کا سا سماں ہوتااور کوئی دن خالی نہ ہوتا ۔جب بیس سے پچس لوگ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جاتے اس میں والد مرحوم ڈاکٹر محمد یوسف خان
اور مرحوم والدہ دونوں کا کردار تھا ۔والد مرحوم کا سیاسی اور سماجی حلقہ احباب وسیع تر تھا جو آزاد کشمیر سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔
مجھے چند ایک اہم شخصیات یاد آ رہی ہیں۔جو ہمارے گھر کئی بار ٹھریں اور ہمارے گھر کو اُن کی مہمان نوازی کا اعزاز حاصل ہوا۔ان شخصیات
میں کے ایج خورشید،سردار عبدالقیوم خان،محمد حیات خان،راجہ ممتاز حسین راتھوڑ،بیگم فرحت راجہ، منشی علی گوہر،راجہ فاروق حیدر،حمید ممتاز،
سلطان محمود،اور دیگر درجنوں افراد شامل ہیں جن سب کے نام لکھتے وقت لگ جائے۔ صاحبزادہ محمد اسحاق ظفر،ممتاز عباسی،حیات خان،
محمد خان کیانی ایسے نام ہیں جن سے گہرا تعلق تھا بلکہ خاندانی مراسم ہیں اور یہ شخصیات تو کئی بار تشریف لائیں۔والدہ کی خدمات کا یہ اثر تھا کے وہ جس محفل میں تشریف لے جاتی سب کھڑے ہو کر ملتے۔ جس دوران راجہ ممتاز حسین راٹھور مرحوم وزیراعظم رہے۔خاتون اول بیگم
فرحت راٹھور والدہ مرحومہ کو گھر بلاتیں اور خود اپنی ذاتی گاڑی میں واپس گھر چھوڑ کرجاتیں۔اُن کی شخصیت میں ایک عجیب اثر تھا جو ملنے
والوں کو اُن کی عزت و احترام کرنے پر مجبور کر دیتا۔راجہ محمد فاروق حیدر جب پہلی بار وزیراعظم بنے تو میں والدہ کے ساتھ اُن سے ملنے گیا ۔
جب ہم اُن سے ملنے پہنچے تو وہ والدہ سے ملنے کھڑے ہو گئے ۔ مجھے اُس وقت بڑا فخر محصوص ہوا اوروالدہ کی شخصیت اور قدروکاٹھ کا احساس فرید نمایاں ہوا۔ایسی مثال صاحبزادہ اسحاق ظفر ،راجہ ممتاز حسین راٹھور یا دیگر شخصیات سے ملاقات کے دوران دیکھنے کو ملتی رہی۔ماں جی کی شخصیت کا ایک پہلو دین سے شفقت اور علمائے دین و بزگانِ دین سے اُن کی محبت بھی تھی۔ضلع بھر کے بزرگانِ دین اور علمائے کرام جب اُس علاقے کا رخ کرتے تو ہمارے گھر میں قیام کو ترجیع دیتے یوں ہمیں اُن سے روحانی تربیت کا موقع بھی ملتا اور بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوتا۔بچپن کی اس دینی تربیت کا اثر سب بہن بھائیوں میں اب تک نمایاں ہے اور ہم سب نے شرافت و کردار کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ علمی و ادبی میدان میں ماں جی کی دلچسپی کا یہ عالم رہا کے اُنھوں نے میرے والد کے ساتھ مل کر اُس علاقے(یونین کونسل چکہامہ و چناری )کے تمام مستحق طلباء و طا لبات کی مالی و اخلاقی مدد کا بیڑہ اٹھائے رکھا اور ہمیں بھی نصحیت کئے رکھی کے مستحقین کی ہر ممکن مدد کرنا۔یوں کتنے ہی غریب و مستحق لوگ تھے جنکی تعلیم اور بعدازاں ملازمت تک کی زمہ داری ہمارے گھر کی خاصیتِ عام رہی۔مظفرآباد میں مرحومہ کی تعزیتی ریفرینس سے خطاب میں سید اصغر شاہ کاظمی نے جب ان باتوں کا ذکر کیا تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ماں جی نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کسر نہ چھوڑی اور سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم
کے لیے مختلف اداروں میں بھیجااور اُن کی خواہش کے مطابق ہم سب بھائی مختلف پیشوں یعنی ڈاکٹر ،پروفیسر،وکالت اور انجےئنر سے وابستہ
ہوئے ۔اللہ تعالیٰ والدین کو اولاد کا غم نہ دے۔والدہ کی خرابی صحت اور کمزوری کا سب سے بڑا سبب ہمارے سب سے چھوٹے بھائی ظفر اقبال کی گاڑی کا حادثہ بنا جس میں ظفر تو بہت شدید زخمی ہوا لیکن میرے کزن عبدالمنان کی بیگم شہناز دنیا فانی سے کوچ کر گئی جو ماں جی کو بیٹیوں سے ذیادہ عزیز تھیں۔یہ صدمہ آہستہ آہستہ ماں جی کی صحت کو اس حد تک متاثر کر گیا کہ وہ ایک دن ہم سب کو خاموشی سے چھوڑ گئیں۔
اللہ تعالیٰ ماں جی کو سایہ رحمت میں پناہ دے اور جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ماں جی کے رخصت ہونے کے بعد کتنے لوگ اور کہاں کہاں سے آئے اُس کا کوئی حساب نہیں۔اُن سب احباب کا بے حد شکریہ جہنوں نے ہمارا دکھ بانٹا اور ماں جی کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہے۔
(یاد آنے کی بات کرتے گر انہیں بھول گئے ہوتے
دل کے مکیں کبھی بھولا نہیں کرتے)

By ajazmir